زینب عباس کو کس وجہ سے جلاوطن کیا گیا- حیران کن انقشاف

Insaf News

 زینب عباس کی بھارت سے جلاوطنی: ایک آزاد صحافت کی دھجیاں

9 اکتوبر 2023

پاکستان کی معروف صحافی اور میزبان زینب عباس کو بھارت سے جلاوطن کردیا گیا ہے۔ زینب عباس کو بھارتی سپریم کورٹ میں ایک وکیل کی درخواست پر جلاوطن کیا گیا تھا۔ وکیل نے دعویٰ کیا تھا کہ زینب عباس نے 9 سال قبل ایک ٹویٹ میں ہندو مذہب کے خلاف تعصب انگیز زبان استعمال کی تھی۔

زینب عباس کو بھارتی حکام نے 5 اکتوبر کو گرفتار کیا تھا۔ ان کے خلاف بھارتی تعزیرات کی دفعہ 295-A کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ اس دفعہ کے تحت مذہبی جذبات کو مجروح کرنے پر 3 سال تک کی سزا ہو سکتی ہے۔



زینب عباس کی جلاوطنی ایک آزاد صحافت کے لیے ایک سنگین دھچکا ہے۔ زینب عباس ایک بہادر اور باصلاحیت صحافی ہیں جو اپنے ملک اور دنیا بھر میں عوامی مفادات کے لیے کام کرتی ہیں۔ ان کی جلاوطنی سے ایک ایسی مثال قائم ہوتی ہے جس سے دنیا بھر میں آزاد صحافت کو خطرہ لاحق ہے۔

زینب عباس کی جلاوطنی کی کچھ اہم نکات:

  • زینب عباس کو بھارتی سپریم کورٹ میں ایک وکیل کی درخواست پر جلاوطن کیا گیا۔
  • وکیل نے دعویٰ کیا تھا کہ زینب عباس نے 9 سال قبل ایک ٹویٹ میں ہندو مذہب کے خلاف تعصب انگیز زبان استعمال کی تھی۔
  • زینب عباس کو 5 اکتوبر کو گرفتار کیا گیا تھا۔
  • ان کے خلاف بھارتی تعزیرات کی دفعہ 295-A کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
  • زینب عباس کی جلاوطنی سے ایک آزاد صحافت کے لیے ایک سنگین دھچکا لگا ہے۔

زینب عباس کا بیان

زینب عباس نے اپنی جلاوطنی کے بعد ایک بیان میں کہا کہ وہ اس فیصلے سے مایوس ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان پر لگائے گئے الزامات بے بنیاد ہیں اور ان کی جلاوطنی ایک سیاسی فیصلہ ہے۔

زینب عباس نے کہا کہ وہ ایک آزاد صحافی ہیں اور وہ اپنے ملک اور دنیا بھر میں عوامی مفادات کے لیے کام کرتی رہیں گی۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کے خلاف لڑتی رہیں گی۔

عالمی ردعمل

زینب عباس کی جلاوطنی پر عالمی برادری نے شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے اعلیٰ کمشنر میشیل بیچلے نے کہا کہ یہ فیصلہ ایک آزادی اظہار رائے کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔

آکسفام نے بھی زینب عباس کی جلاوطنی کی مذمت کی ہے۔ آکسفام نے کہا کہ یہ فیصلہ ایک آزاد صحافت کے لیے ایک خطرہ ہے۔

آخر میں

زینب عباس کی جلاوطنی ایک آزاد صحافت کے لیے ایک سنگین دھچکا ہے۔ یہ ایک ایسی مثال قائم کرتی ہے جس سے دنیا بھر میں آزاد صحافت کو خطرہ لاحق ہے۔ ہمیں زینب عباس کی حمایت کرنی چاہیے اور ایک آزاد صحافت کے لیے لڑنا چاہیے۔