اسلام آباد: تحریک انصاف کے بانی اور سابق وزیراعظم عمران خان نے پارٹی رہنما سلمان اکرم راجہ کی جانب سے پارٹی کے بعض افراد پر کی گئی تنقید پر ناراضی کا اظہار کیا۔ ذرائع کے مطابق، یہ تحفظات انہوں نے وکیل سلمان صفدر کے ذریعے سلمان اکرم راجہ تک پہنچائے اور واضح کیا کہ سیاسی جماعت کو کسی اسکول کلاس کی طرز پر نہیں چلایا جا سکتا۔ عمران خان نے اختلافات کو ہوا دینے کی بجائے پارٹی اتحاد پر زور دیا۔
یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب جیل انتظامیہ نے عمران خان کی بہن علیہ خان اور دیگر اہل خانہ کو ملاقات کی اجازت نہیں دی، جبکہ بیریسٹر گوہر، علی ظفر سمیت پانچ وکلاء کو ملنے دیا گیا۔ اس موقع پر سلمان اکرم راجہ کو خود بھی ملاقات کی اجازت نہ مل سکی، جس پر انہوں نے انتظامیہ پر جانبداری کا الزام عائد کیا۔ ان کے اس بیان پر پارٹی چیئرمین بیریسٹر گوہر نے سخت ردعمل ظاہر کیا اور یاد دلایا کہ پارٹی نے کبھی ملاقاتوں کے بائیکاٹ کی پالیسی نہیں اپنائی۔
گوہر علی خان نے مزید یاد دلایا کہ 25 مارچ کو جب عمران خان کی بہنوں کو ملاقات سے روکا گیا، اس وقت سلمان اکرم راجہ کو ملاقات کی اجازت ملی تھی۔ منگل کے روز ہونے والی ملاقات میں دیگر اہم سیاسی امور پر بھی گفتگو ہوئی، جس میں امریکا میں مقیم ایک پارٹی رہنما و بلاگر کے بارے میں بھی بات کی گئی۔ عمران خان نے انہیں فی الحال سیاسی اور کور کمیٹیوں سے باضابطہ طور پر ہٹانے کو قبل از وقت قرار دیا، تاہم ہدایت کی کہ انہیں ان اجلاسوں میں مدعو نہ کیا جائے۔
پارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ رہنما کچھ عرصے سے سینئر قیادت کے رویے پر عدم اطمینان کے باعث ان سرگرمیوں سے دور تھے، اور انہیں یہ احساس ہے کہ انہیں جلد ہی کمیٹیوں سے علیحدہ کیا جا سکتا ہے۔ ملاقات میں سینیٹر اعظم سواتی سے متعلق معاملہ بھی زیر بحث آیا۔ عمران خان نے واضح کیا کہ وہ ملک کے مفاد میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت کیلئے تیار ہیں لیکن انہوں نے اعظم سواتی یا کسی اور کو اپنی طرف سے ذاتی رعایت حاصل کرنے کا کوئی اختیار نہیں دیا۔ اگرچہ انہوں نے اعظم سواتی کے روابط پر کچھ تحفظات کا اظہار کیا، تاہم ان کا مؤقف بدستور وہی ہے کہ مذاکرات صرف پاکستان، جمہوریت اور قانون کی بالادستی کیلئے ہونے چاہئیں۔