ہارے ہوئے میچوں میں بھی پاکستانی کھلاڑیوں کی عجیب وغریب حرکتیں

 آکلینڈ/ مانیٹرنگ ڈیسک: ٹی ٹونٹی کرکٹ میں پاکستان کی مایوس کن کارکردگی کا تسلسل جاری ہے۔۔اس فارمیٹ میں پاکستان گزشتہ دو برس سے کوئی بھی اہم میچ جیتنے میں ناکام رہا ہے۔ جبکہ اسی دور میں  اپنی فل سٹرینتھ کے ساتھ کھیلنے کے باوجود پاکستان کو دنیا کی کمزور اور غیر معروف ٹیموں سے شکست کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے ۔ جن میں زمبابوے ، آئرلینڈ اور امریکہ تک کی ٹیمیں بھی شامل ہیں ۔ ستم ظریفی تو یہ کہ پاکستان بھارت کے خلاف 120 رنز اور زمبابوے کے خلاف 130 رنز کا ہدف حاصل کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکا ۔ اور اس وقت نیوزی لینڈ میں جاری پانچ میچز کی سیریز میں بھی پاکستان کی شکستوں کا تسلسل ٹوٹ نہیں سکا۔ 



خراب کارکردگی تو ایک طرف لیکن اس برے ریکارڈ کے باوجود پاکستانی کھلاڑیوں کی دوران میچز باڈی لینگوئج اور حرکات و سکنات سے بھی کہیں سے یہ ٹیم کوئی مقابلہ کرنے والی پیشہ ورانہ ٹیم دکھائی نہیں دے رہی۔ کئی میچوں میں ایسے حیران من مناظر دیکھنے کو ملے ہیں جنھیں دیکھ کر لگتا ہے کہ کھلاڑی محض ایک رسمی کارروائی پوری کر رہے ہیں ۔میچ تو صرف ایک بہانہ ہیں جن  کی آڑ میں انھیں میچ فیس مل جائے گی اور عالیشان ملکوں میں سیرو تفریح اور شاپنگ کا موقع میسر آ جائے گا۔  


نیوزی لینڈ کے خلاف جاری سیریز کے پہلے میچ میں جب میزبان ٹیم کو میچ جیتنے کے لیے 61 گیندوں پر صرف دو رنز چاہیے تھے ،یعنی میچ صرف ایک آدھ منٹ کے بعد میچ ختم ہونے والا تھا تو پاکستان نے ٹیم ہڈل بلا لیا۔ 

نوٹ: ٹیم ہڈل وہ پوزیشن ہوتی ہے جب کھلاڑی میچ کے کسی اہم مرحلے میں ایک دائرے میں اکٹھے ہو کر باقی میچ کےلیے گیم پلان بناتے اور کچھ اہم فیصلے کرتے ہیں 

لیکن حیرت کی بات تھی کہ ایک ایسے موقع پر ٹیم ہڈل کیوں لیا گیا جب میچ تقریباً ختم ہی ہو گیا تھا اور کسی معجزے کا ہونا بھی ممکن نہیں تھا۔ آخر تب کیا باتیں ہو رہی تھیں ۔ کیا یہ طے کیا جا رہا تھا کہ میچ کے بعد شکست کا بہانہ کیا گھڑنا ہے یا الزام کس پر ڈالنا ہے ۔ 

اسی طرح دوسرے ٹی ٹونٹی میچ میں جب نیوزی لینڈ کو جیتنے کے لیے صرف چار رنز چاہیے تھے تو حارث رؤف نے ایک بے فائدہ وکٹ حاصل کر لی ۔ عام طور پر اگر ایسے موقع پر وکٹ مل بھی جائے تو باؤلر کسی سیلیبریش کی بجائے بے کیفی سے اپنی باؤلنگ کے نشان کی جانب واپس چلا جاتا ہے اور فیلڈرز بھی اپنی پوزیشن پر ہی کھڑے رہتے ہیں لیکن حارث رؤف جشن مناتے ہوئے شاداب خان کی طرف بھاگے اور شاداب خان بھی دوڑے ہوئے آئے اور دونوں کھلاڑی ایسے بغل گیر ہوئے  اور قہقہے مارنے لگے جیسے آخری وکٹ تھی جو گر گئی اور میچ جیت گئے۔ ۔

کھلاڑیوں کے چہروں پر کہیں سے غم و غصہ ، جارحیت یا مخالف ٹیموں پر پریشر ڈالنے کی کوئی کوشش نظر نہیں آرہی۔ یکطرفہ طور پر میچز ہارنے کا یہ عالم ہے کہ مخالف ٹیمیں اب پاکستان کو ہرانے کو کوئی بڑی کامیابی تصور نہیں کرتیں ۔