کہتے ہیں کہ ایک چڑا اور چڑیا اڑتے جا رہے تھے کہ انھیں راستے پر بکھرا ہوا دانا دنکا نظر آیا اور وہ اسے چگنے کے لیے زمین پر اتر آئے ۔ چڑا بے صبری سے دانا چگنے لگا لیکن چڑیا قدرے محتاط تھی۔ اس نے دیکھا کہ فاصلے پر ایک باریش داڑھی اور درویش لباس میں ایک شخص ایک برتن سے وہ دانا چن چن کر زمین پر پھینک رہا تھا۔ چڑیا نے چڑے سے کہا ' ہمیں محتاط رہنا چاہیے ۔ کہیں یہ دانا ہمیں شکار کرنے کےلئے بچھایا گیا ایک جال نہ ہو' جس پر چڑے نے جواب دیا۔ ' کیسی ناشکری کی باتیں کرتی ہو۔ وہ دیکھو، ایک تو وہ نیک سیرت انسان اپنا کام کاج چھوڑ کر ہم پرندوں کا پیٹ بھرنے کے لیے دانا ڈال رہا ہے ، اس پر تم ہو کہ بجائے کہ اسے دعا دینے کے ، اس کی نیت پر شک کر رہی ہو. چپ چاپ دانا کھاؤ اور اس بھلے آدمی کی لمبی عمر کی دعا مانگو' ۔ جس پر چڑیا بھی دانا کھانے لگ گئی ۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ اس شخص نے اپنے بغل میں چھپائے ہوئے تھیلے سے کمان نکالی اور چڑے کا نشانہ باندھ کر تیر چلایا جو سیدھا چڑے کو جا لگا اور چڑا وہیں ڈھیر ہو گیا ۔ چڑیا کے جسم سے جیسے جان ہی نکل گئی اور اس کا کلیجہ پھٹنے لگا۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ شکاری اسے بھی اپنا نشانہ بناتا ، چڑیا روتے ہوئے دل کے ساتھ وہاں سے اڑ گئی اور سیدھی بادشاہ کے دربار میں پہنچی۔ اس نے بڑے دکھ کے ساتھ بادشاہ کے سامنے ساری روداد ںیان کی۔ بادشاہ نے اپنے درباریوں کو حکم دیا ' جاؤ اور اس شخص کو پکڑ کر یہاں لے آؤ' درباریوں نے حکم کی تعمیل کی اور اس شخص کو گرفتار کر کے لے آئے ۔ بادشاہ نے اس سے استفسار کیا۔ ' کیا یہ بات سچ ہے کہ تم نے آج ایک چڑے کو مارا ہے ' ۔جس پر اس شخص نے اس الزام کو قبول کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ایک شکاری تھا اور اس کا شکار کرنے کا یہی طریقہ تھا۔ بادشاہ نے چڑیا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ' اب سزا کا فیصلہ تمھارے ہاتھ میں ہے ۔ اگر چاہو تو میں ابھی اس شخص کا سر قلم کرنے کا حکم دے دیتا ہوں ' جس پر چڑیا نے جو الفاظ کہے ، وہ یہ تھے ' نہیں جہاں پناہ، اس کا سر قلم مت کیجئے ۔ بس اسے یہ حکم دے دیجیے کہ اگر یہ شکاری ہے تو کھلے عام شکاری کا لباس پہن کر گھومے اور تیر کمان سامنے ہاتھ میں رکھے۔۔ نیک سیرتی اور رحمدلی کا دکھاوا چھوڑ دے'
شاطر شکاری اور مظلوم چڑیا کی فریاد
پیش کردہ حکایت تیرہویں صدی کے مشہور عالم، فلسفی اور صوفی شاعر مولانا جلال الدین رومی نے بیان کی ہے