اسلام آباد/ مانیٹرنگ ڈیسک:پاکستان نے افغان مہاجرین کے قیام میں توسیع کی افغان طالبان کی درخواست مسترد کرتے ہوئے واضح کر دیا ہے کہ یکم اپریل سے تمام غیر قانونی افغان باشندوں اور افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ برقرار رکھا جائے گا۔
پاکستان نے 7 مارچ کو اعلان کیا تھا کہ تقریباً 8 لاکھ افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کو 31 مارچ تک ملک چھوڑنا ہوگا، بصورت دیگر انہیں ڈی پورٹ کر دیا جائے گا۔ یکم اپریل کے بعد وہ غیر قانونی مقیم افراد تصور کیے جائیں گے۔
پہلے یہ خبریں گردش کر رہی تھیں کہ پاکستان تمام افغان باشندوں کو نکالنے کا منصوبہ بنا رہا ہے، تاہم وزارت داخلہ نے اب پہلی بار باضابطہ طور پر تصدیق کر دی ہے کہ غیر قانونی غیر ملکیوں کی واپسی کا پروگرام یکم نومبر 2023 سے نافذ العمل ہے۔
طالبان حکومت نے پاکستانی حکام سے سفارتی ذرائع کے ذریعے اپنے شہریوں کو ملک بدر نہ کرنے اور مہلت دینے کی درخواست کی تھی، تاہم سرکاری ذرائع کے مطابق پاکستان کا فیصلہ حتمی ہے اور اس میں کسی قسم کی نرمی نہیں کی جائے گی۔
چاروں صوبوں اور متعلقہ اداروں کو غیر قانونی افغان مہاجرین کی واپسی کے انتظامات مکمل کرنے کی ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔ نومبر 2023 سے اب تک 8 لاکھ سے زائد غیر قانونی افغان باشندوں کو ملک بدر کیا جا چکا ہے، جبکہ یو این ایچ سی آر میں رجسٹرڈ مہاجرین اور افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کو عارضی طور پر قیام کی اجازت دی گئی تھی۔
اندازوں کے مطابق اب بھی تقریباً 30 لاکھ افغان پاکستان میں مقیم ہیں۔ حالیہ دنوں میں افغان حکومت نے اپنے شہریوں کی جبری ملک بدری اور مبینہ ناروا سلوک پر تشویش ظاہر کی ہے، تاہم پاکستان نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے افغان حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی باوقار واپسی کے لیے سازگار حالات پیدا کریں۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ افغان باشندے ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں تیزی سے ملوث ہو رہے ہیں، اور ابتدائی تحقیقات کے مطابق بنوں چھاؤنی میں حالیہ دہشت گرد حملے میں بھی افغان شہریوں کے ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں۔ اس فیصلے سے دونوں ممالک کے درمیان پہلے سے موجود کشیدگی میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔