نئی دہلی/ مانیٹرنگ ڈیسک: بی سی سی آئی کی جانب سے ایشیا کپ میں بھارتی ٹیم کے شرکت نہ کرنے کے بھارتی میڈیا کے دعوے کی تردید نے ایک بار پھر عجیب و غریب صورتحال پیدا کر دی ہے ۔ بھارتی میڈیا نے دو روز قبل خبر دی تھی کہ بھارتی کرکٹ بورڈ نے ایشیا کپ میں اپنی ٹیم کو کھلانے سے انکار کر دیا ہے۔ اس خبر میں بتایا گیا کہ بھارتی بورڈ نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ بھارت ایک ایسے ایونٹ میں شرکت نہیں کرے گا
جس کا سربراہ ایک پاکستانی وزیر ہو۔ لیکن کچھ ہی دیر بعد سیکرٹری جنرل بی سی سی آئی راجیو شکلا کا بیان سامنے آیا جن کا کہنا تھا کہ بھارتی کرکٹ بورڈ نے ایشیا کپ سے ٹیم انڈیا کی دستبرداری کا کوئی فیصلہ نہیں کیا ۔ بلکہ کرکٹ بورڈ اس حوالے سے کسی حتمی فیصلے کے لیے غور کر رہا ہے ۔ ایسی ہی صورتحال پاکستان کی میزبانی میں کھیلی گئی چیمپیئنز ٹرافی کے دوران پیش آئی جب بھارتی میڈیا نے دعویٰ کیا کہ ٹیم انڈیا ایونٹ میں اپنی جرسی پر میزبان ملک پاکستان کے نام کا لوگو استعمال نہیں کرے گی۔ تاہم اس موقع پر بھی راجیو شکلا ہی کو وضاحت دینا پڑی کہ بھارت اس حوالے سے آئی سی سی کے قوانین پر پوری طرح عملداری کو یقینی بنائے گا اور میزبان ملک کے نام کا لوگو جرسی پر ضرور لکھا جائے گا۔ اور بعد میں ایسا ہی ہوا۔ اب بھارتی میڈیا ایک نئی سٹوری لے کر آیا ہے جس کے تحت کہا جا رہا ہے کہ اگلے سال بھارت کی میزبانی میں ہونے والے ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں پاکستان اور بھارت ایک گروپ میں نہیں رکھے جائیں گے کیونکہ بھارت نہیں چاہتا کہ اس کی ٹیم پاکستان کے ساتھ آئی سی سی ایونٹ سمیت کوئی بھی میچ کھیلے ۔ بظاہر تو یہ دعویٰ بھارت کا حقیقی پلان بھی ہو سکتا ہے کیونکہ ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں بھارتی ٹیم اپنے میچز اپنے ملک میں کھیلے گی جبکہ پاکستان اس ایونٹ کے میچز بھارت کی بجائے سری لنکا میں کھیلے گا تو بھارت کی خواہش یہی ہو گی کہ اسے اپنے ہی ہوم ایونٹ کا میچ کھیلنے سری لنکا کھیلنے جانے کی ہزیمت نہ اٹھانی پڑے ۔ لیکن پھر بھی یہ سوال باقی ہوتا ہے کہ اگر کوالیفائنگ راؤنڈ میں دونوں ٹیمیں آمنے سامنے آ گئیں تو پھر کیا ہو گا۔ کیا پھر بھی بھارت پاکستان کے ساتھ میچ کھیلنے سے انکار ہی کرے گا؟ اور اگر ایسا ہوا تو قانون کے تحت کیا پاکستان کو بغیر میچ کھیلے فاتح قرار دے دیا جائے گا؟ کیا بھارت اس کے لیے مان جائے گا؟ موجودہ صورتحال میں پاکستان کو بھی ہر گز ہر گز بھارت سے کرکٹ کھیلنے کا کوئی ایسا دیوانہ وار شوق نہیں ہو گا۔ لیکن پھر بھی اوپر بیان کیے گئے مسئلے کا حل آخر ہو گا کیا؟ موجودہ بھارتی حکومت اور مئی کے پہلے عشرے میں پیش آئی صورتحال کے بعد کرکٹ ٹرمز کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ پچھلے دس سالوں میں بھی بھارت پاکستان کے ساتھ صرف آئی سی سی ایونٹس میں ہی کھیلا ہے اور ایک ٹاکرے کو برقرار رکھنے کے لیے بھارت نے پاکستان کو اپنے ہی گروپ میں بھی رکھوایا ہے لیکن اب دونوں ممالک کے تعلقات اس صدی کی بد ترین صورتحال اختیار کرچکے ہیں ۔ اس لیے کم سے کم دو سال تو پاک بھارت میچز کو بھول جانا چاہیے ۔ لیکن ورلڈ کپ کوالیفائنگ راؤنڈ میچ کا کیا ہو گا۔ شاید یہ وقت آنے سے پہلے پتہ نہیں چل پائے گا۔ بہر حال ایک بات طے ہے کہ بھارتی میڈیا کو اگرچہ ہر طرح کی رپورٹنگ میں مکمل آزادی حاصل ہے لیکن اکثر صورتحال ان خبروں سے مختلف نکل آتی ہے جن کا پرچار بھارتی میڈیا کرتا رہتا ہے۔