جان محمد اچکزئی کے بلوچستان میں شدت پسند عناصر کے بارے میں اہم انکشافات

 کوئٹہ/ مانیٹرنگ ڈیسک: سابق صوبائی وزیر داخلہ جان اچکزئی نے انکشاف کیا ہے کہ بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے تقریباً 1200 سے 1500 سرگرم ارکان موجود ہیں جو صرف اُس وقت فعال ہوتے ہیں جب انہیں بیرونی مالی معاونت حاصل ہوتی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ یہ شدت پسند عناصر ریاست پاکستان کے سامنے کھڑے ہونے کی سکت نہیں رکھتے، کیونکہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور اس نے ماضی میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) جیسے بڑے خطرات کو کامیابی سے شکست دی ہے۔



انہوں نے کہا کہ نواب اکبر بگٹی بلوچستان میں ماضی کی بدامنی کے مرکزی کردار تھے اور ان کے خلاف کمیشن کا قیام ایک سنگین غلطی ثابت ہوا۔ جان اچکزئی کے مطابق بلوچستان کے مسائل کسی باقاعدہ سیاسی معاہدے کا نتیجہ نہیں تھے بلکہ چند مخصوص سرداروں کی ذاتی مفادات پر مبنی سازشیں تھیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ براہمداغ بگٹی سمیت دیگر سرداروں کو بھارت سے فنڈز ملتے تھے تاکہ وہ تخریب کاری کو فروغ دیں۔


انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ آشوک چکرورتی نامی ایک بھارتی ایجنٹ اس وقت انسداد دہشت گردی محکمے کی حراست میں ہے جو پاکستان میں دہشت گرد گروپوں کی مدد کرتا رہا ہے۔ مزید برآں، انہوں نے بتایا کہ ایک بھارتی فوجی افسر "فاطمہ" کے نام سے جعلی سوشل میڈیا اکاؤنٹ چلا رہا ہے، جو پاکستان مخالف پروپیگنڈا مہم کا حصہ ہے۔ اس مہم کے تحت 25 ہزار جعلی اکاؤنٹس روزانہ 8000 سے زائد پاکستان مخالف پوسٹس شیئر کر رہے ہیں۔


جان اچکزئی نے کہا کہ بلوچستان کے عوام پاکستان سے علیحدگی نہیں چاہتے، اور صرف مٹھی بھر شدت پسند علاقے میں بدامنی پھیلا رہے ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ دہشتگردی اور پرامن سیاسی سرگرمیوں میں فرق کیا جانا چاہیے، اور ریاست کو دہشتگرد عناصر کے خلاف مؤثر اقدامات کرنے کا پورا اختیار حاصل ہے۔


معاشی حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 18ویں آئینی ترمیم کے تحت وفاق کو معدنی وسائل میں کوئی حصہ نہیں دیا گیا، جس پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ بلوچستان کو نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ کے تحت ایک ہزار ارب روپے ملتے ہیں، جنہیں شفاف طریقے سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے تاکہ صوبے میں ترقی کو یقینی بنایا جا سکے۔