واشنگٹن / مانیٹرنگ ڈیسک: واشنگٹن میں واقع نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر حسن عباس نے کہا ہے کہ بھارت نے امریکا کو یقین دہانی کرائی تھی کہ اس بار وہ خود پاکستان کو سبق سکھائے گا، اس لیے امریکا کو مداخلت کی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم، جب پاکستان نے دوسرا مؤثر جوابی حملہ کیا تو بھارت نے فوراً امریکا سے سیزفائر کی درخواست کر دی۔
ڈاکٹر حسن عباس نے جیو نیوز کے پروگرام "آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ" میں گفتگو کرتے ہوئے تصدیق کی کہ بھارت نے واقعی امریکا سے رابطہ کر کے جنگ بندی کی درخواست کی، اور اس میں کوئی شک نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جیسے ہی یہ واقعات شروع ہوئے اور دو ایٹمی طاقتیں جنگ کے قریب پہنچ گئیں، پاکستان کا پہلا ردعمل نہایت سمجھداری اور حکمت عملی پر مبنی تھا، جو کہ بھارت کی توقعات کے برعکس تھا۔ بھارت کو یقین تھا کہ پاکستان اس کا جواب نہیں دے پائے گا، لیکن جب پاکستان نے بھارتی طیارے مار گرائے تو صورتحال بدل گئی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت امریکا اور بھارت کے درمیان تجارتی مذاکرات جاری تھے، لیکن جیسے ہی حالات کشیدہ ہوئے، بھارت نے کچھ ایسی شرائط رکھیں جو امریکا کو قبول نہیں تھیں۔ اس دوران برطانیہ اور سعودی عرب نے سیزفائر کے لیے پس منظر تیار کیا۔ پاکستان کا ردعمل بھارت کے لیے غیر متوقع اور مؤثر ثابت ہوا۔
ڈاکٹر حسن عباس نے انکشاف کیا کہ کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ پاکستان کے پاس بھارتی ایئربیسز سے اڑنے والے طیاروں کا پتہ چلانے اور نظام کو جام کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ بھارت نے پاکستان کی عسکری صلاحیتوں کو کم سمجھا اور اسے نظرانداز کیا۔ جب بھارت نے دوسری اسٹرائیک کی، تو اسے یقین تھا کہ پاکستان صرف محدود ردعمل دے گا، لیکن پاکستان کی جانب سے سخت اور مؤثر جوابی حملہ کیا گیا، جس کے بعد بھارت نے گھبراہٹ میں امریکا سے سیزفائر کی درخواست کی۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اس وقت سفارتی میدان میں بھی کامیاب ہو چکا تھا، کیونکہ بھارت کی پاکستان کو تنہا کرنے کی کوششیں ناکام ہو چکی تھیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کو صدر ٹرمپ کی کشمیر سے متعلق ٹوئٹس کو سنہری الفاظ میں لکھنا چاہیے، کیونکہ فائنل مذاکرات میں کشمیر کا ذکر پاکستان کی شرط تھی۔ بھارت کی پوزیشن کمزور ہو چکی تھی اور اس سے بڑی اسٹریٹیجک غلطی (مس کیلکولیشن) ہوئی۔