اسلام آباد/ مانیٹرنگ ڈیسک: ژوب واقعے میں شہید ہونے والے افراد میں سے ایک شخص میاں چنوں سے تعلق رکھنے والا غلام سعید بھی تھا جو اپنے والد کی عیادت کے لیے اپنے گاؤں آ رہا تھا کہ شناختی کارڈ دیکھ کر اسے بس سے اتار کر گولیاں مار دی گئیں ۔ جب اس کی میت اس کے گاؤں پہنچی تو اس کا بیمار والد اپنے جوان بیٹے کی موت کا صدمہ برداشت نہ کر سکا اور چل بسا۔ دونوں باپ بیٹے کی نماز جنازہ ادا کر دی گئی ۔ اسی طرح لودھراں سے تعلق رکھنے والے دو بھائی اپنے والد کے انتقال کی خبر سن کر ٹوٹے ہوئے دل، مردہ جسموں ،بوجھل قدموں اور نم آنکھوں کے ساتھ بس میں سوار ہو کر گھر واپس آ رہے تھے کہ شناختی کارڈ پر پنجاب کی شہریت دیکھ کر انھیں بھی جان سے مار دیا گیا۔ اس طرح جہاں اس گھر سے ایک بوڑھ بیمار والد کی میت اٹھنے والی تھی۔ ساتھ دو جوان بیٹوں کے بھی جنازے اٹھے اور پورے ملک میں کہرام مچ گیا اور سوگ طاری ہو گیا۔ ایسا کرنے والے دل بیرونی دنیا کو یہ بتا رہے ہیں کہ بلوچوں پر ظلم ہو رہا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہاں سے لاشیں پنجابیوں کی اٹھ رہی ہیں ۔ وہاں نام قوم پرستی کا لیا جاتا ہے لیکن پچھلے ایک ہفتے میں مرنے والے بارہ بلوچوں کا نام نہ کسی ماہ رنگ نے لیا۔ نہ اختر مینگل نے۔ نہ ماما قدیر نے نہ سمی دین نے ۔ اللہ جانے وہ مرنے والے بلوچ کسی اور سیارے کے بلوچ تھے یا ان کا خون کسی اور رنگ کا تھا۔ اور اگر نہیں تو پھر کیسی قوم۔پرستی اور کس قسم کی بلوچیت کا ڈھول بجایا جا رہا ہے۔ یہ پاکستانی بن کر ہی سوچا جا سکتا ہے۔۔